Ticker

6/recent/ticker-posts

قربانی کی رقم کا مسجد کی تعمیر میں استعمال کرنا شرعاً کیسا ہے ؟______Qurbani ka paisa masjid me use karna kaisa hai?

قربانی کی رقم کا مسجد کی تعمیر یا غریبوں پر خرچ کرنا شرعاً کیسا ہے ؟

السلام علیکم۔۔۔

کیا قربانی کا پیسہ مسجد کے تعمیراتی کام میں لگاسکتے ہیں ۔۔؟

قربانی کرنے کے بجائے اسکا پیسہ مسجد میں لگانا کیسا ہے، 

اگر نہیں لگا سکتے تو اسکی وجہ کیا ہے ۔۔؟

قربانی کی کھال دفن کرنا شرعا کیسا ہے؟

🕋 باسمہ تعالی 🕋

🌿 وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 🌿

✒️ الجواب بعونه تعالي ✒️

اولا تو یہ سمجھ لیں کہ قربانی کا فریضہ اور صدقہ الگ ہے،قربانی کا کوئی بدل نہیں ہے،ایام قربانی میں قربانی کرنا ہر صاحب نصاب کے لئے لازم و ضروری ہے،

فتاوی محمودیہ میں حضرت مفتی صاحب نے لکھا ہے کہ: قربانی کے ایام میں قربانی واجب ہے،قیمت دینا کافی نہیں،اگر کسی عارض کی وجہ سے قربانی نہیں کرسکا،اور دن گزر گئے تو پھر قیمت کا صدقہ کرنا ضروری ہے،

نیز کتاب المسائل میں ہے کہ:واضح ہو کہ ایام قربانی میں جانور کا ذبح کرنا ہی لازم ہے،جانور کی قیمت کے صدقہ سے کام نہیں چل سکتا ہے،

اور جو شخص وسعت کے باوجود قربانی نہیں کرے گا وہ سخت گنہگار ہوگا؛کیوں کہ وہ واجب کا تارک ہے،

نوٹ:آج کل بعض ماڈر ذہن رکھنے والے لوگ قربانی کے بجائے صدقہ کرنے پر زور دیتے ہیں،تو ان کی یہ بات شریعت کے قطعاً خلاف ہے،اور ہر گز لائق توجہ نہیں،

مذکورہ فتاوی سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ایام قربانی میں قربانی کرنا لازم و ضروری ہے،غریبوں پر صدقہ کرنا یا مسجد کی تعمیر میں رقم کا خرچ کرنا  قربانی کا بدل نہیں ہو سکتا ہے

البتہ اگر کوئی شخص ایام قربانی میں قربانی نہ کرسکا قربانی واجب ہونے کے باوجود تو ایک بکری یا خصی کی قیمت کا صدقہ کرنا ضروری ہوگا یا جانور خریدا تھا تو جانور کا صدقہ کرنا لازم ہوگا،

اب رہا مسئلہ کہ آگر کسی شخص نے لاپرواہی یا جانور نہ ملنے کی وجہ سے یا کسی وجہ سے قربانی نہیں کر سکا اور قربانی کے تینوں دن گزر گئے تو اب ایک بکری کی قیمت کا صدقہ کرنا لازم ہے لیکن اس رقم کا استعمال مسجد میں کرنا جائز نہیں ہے کیوں کہ یہ رقم صدقہ واجبہ اور تاوان کے ذیل میں آتا ہے اور صدقہ واجبہ یا تاوان کا مال مسجد میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے،مسجد میں صرف پاکیزہ اور صدقہ نافلہ کا مال لگایا جائے گا،

📗 والحجة على ماقلنا 📗

حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو مُسْلِمُ بْنُ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ الْحَذَّاءُ الْمَدَنِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ أَبُو مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِي الْمُثَنَّى ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ، إِنَّهُ لَيَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا، وَأَشْعَارِهَا، وَأَظْلَافِهَا، وَأَنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنَ الْأَرْضِ، فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا،

(رواه الترمذي أَبْوَابُ الْأَضَاحِيِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. بَابٌ : مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْأُضْحِيَّةِ)

(٢):ومنها: أنه لا يقوم غيرها مقامها في الوقت حتى لو تصدق بعين الشاة أو قيمتها في الوقت لا يجزئه عن الاضحية ،

(الفتاوي الهندية كتاب الاضحية الباب الاول)ج/٥/ص:٣٦٣/م: دار الكتب العلميةبيروت لبنان

وقضائها بعد مضي وقتها بالتصدق بعينها أو بقيمتها إن كان من المضحي غنيا ولم يوجب على نفسه شاة بعينها تصدق بقيمة شاة اشتري أو لم يشتر،

(الفتاوي الهندية كتاب الاضحية)ج:٥/ص:٢٩٦

كتاب المسائل ج:٢/ص:٢٩٤

فتاوي محموديه ج:٢٦/ص:٢٢٦

والله أعلم بالصواب

بنده حقير مفتي شمس تبريز قاسمي والمظاهري.

رابطہ:7983145589

۱٦:ذي الحجة/يوم السبت/١٤٤٣

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے